Saturday, 4 March 2017

شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا -- حیدر علی آتش

شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا

مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی
سحر تک مہ و مشتری کا قراں تھا

وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمیں پر سے اک نور تا آسماں تھا

نکالے تھے دو چاند اُس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پر گماں تھا

عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل
فرحناک تھی روح دل شادماں تھا

مشاہد جمال پری کی تھیں آنکھیں
مکان وصال اک طلسمی مکاں تھا

حضوری نگاہوں کو دیدار سے تھی
کُھلا تھا وہ پردہ کہ جو درمیاں تھا

کیا تھا اُسے بوسہ بازی نے پیدا
کمر کی طرح سے جو غائبا وہاں تھا

حقیقت دکھاتا تھا عشق مجازی
نہاں جس کو سمجھے ہوئے تھے عیاں تھا

بیاں خواب کی طرح جو کر رہا ہے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا



حیدر علی آتش

ہوائے دَورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے -- خواجہ حیدر علی آتش

ہَوائے دَورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے

گدا نواز کوئی شہسوار راہ میں ہے
بُلند آج نہایت غُبار راہ میں ہے

شباب تک نہیں پہونچا ہے عالمِ طِفلی
ہنوز حُسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے

عدَم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر، نہ کوئی دیار راہ میں ہے

طریقِ عِشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط
کہیں چڑھاؤ، کسی جا اُتار راہ میں ہے

طریقِ عِشق کا سالک ہے واعظوں کی نہ سُن
ٹھگوں کے کہنے کا کیا اعتبار راہ میں ہے

جگہ ہے رحم کی، یار ایک ٹھوکر اِس کو بھی
شہیدِ ناز کا تیرے مزار راہ میں ہے

سمندِ عمر کو اللہ رے شوقِ آسایش
عناں گسستۂ و بے اختیار راہ میں ہے

نہ بدرقہ ہے، نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
فقط عنایتِ پروَردِگار راہ میں ہے

نہ جائیں آپ ابھی دوپہر ہے گرمی کی
بہت سی گرد، بہت سا غبار راہ میں ہے

تلاشِ یار میں کیا ڈھونڈیے کسی کا ساتھ
ہمارا سایہ ہمیں ناگوار راہ میں ہے

جنُوں میں خاک اُڑاتا ہے ساتھ ساتھ اپنے
شریکِ حال ہمارا غُبار راہ میں ہے

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے

کوئی تو دوش سے بارِ سفر اُتارے گا
ہزار راہزنِ اُمیدوار راہ میں ہے

مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
خدا تو دوست ہے، دشمن ہزار راہ میں ہے

بہت سی ٹھوکریں کِھلوائے گا یہ حُسن اُن کا
بُتوں کا عِشق نہیں کوہسار راہ میں ہے

پتا یہ کوچۂ قاتل کا سُن رکھ اے قاصد
بجائے سنگِ نِشاں اِک مزار راہ میں ہے

پیادہ پا ہُوں رَواں سُوئے کوچۂ قاتل
اجَل مِری، مِرے سر پر سوار راہ میں ہے

چلا ہے تیر و کماں لے کے صید گاہ وہ تُرک
خوشا نصیب وہ جو جو شِکار راہ میں ہے

تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل، نہ ٹھہرآتش
گُلِ مُراد ہے منزِل میں، خار راہ میں ہے



 خواجہ حیدر علی آتش

ہوتا ہے سوزِ عِشق سے جل جل کے دِل تمام -- خواجہ حیدرعلی آتش

ہوتا ہے سوزِ عِشق سے جل جل کے دِل تمام
کرتی ہے رُوح، مرحلۂ آب و گِل تمام

حقا کے عِشق رکھتے ہیں تجھ سے حَسینِ دہر
دَم بھرتے ہیں تِرا بُتِ چین و چگِل تمام

ٹپکاتے زخمِ ہجر پر اے ترک ، کیا کریں
خالی ہیں تیل سے تِرے، چہرے کے تِل تمام

دیکھا ہے جب تجھے عرق آ آ گیا ہے یار
غیرت سے ہوگئے ہیں حَسِیں مُنفعِل تمام

عشق بُتاں کا روگ نہ اے دِل لگا مجھے
تُھکوا کے خُون کرتا ہے آزارِ سِل تمام

قُدسی بھی کُشتہ ہیں تِری شمشِیرِ ناز کے
مارے پڑے ہیں مُتّصِل و مُنفعِل تمام

دردِ فِراقِ یار سے ، کہتا ہے بند بند !
اعضا ہمارے ہو گئے ہیں مُضمحِل تمام

ساری عدالت اُلفتِ صادِق کی ہے گواہ
مُہروں سے ہے لِپی ہُوئی اپنی سجِل تمام

کرتے ہیں غیر یار سے میرا بیانِ حال
اُلفت سے ہوگئے ہیں موافق مُخِل تمام

تیرِ نِگاہ ناز کا رہتا ہے سامنا
چَھلنی ہُوا ہے سِینہ، مُشبّک ہے دِل تمام

ہوتا ہے پردہ فاش، کلامِ دروغ کا
وعدے کا دِن سمجھ لے وہ، پیماں گسِل، تمام

خلوت میں ساتھ یار کے جانا نہ تھا تمھیں
اربابِ انجُمن ہُوئے آتش خجِل تمام



 خواجہ حیدرعلی آتش

Friday, 3 March 2017

جو اُتر کے زینئہ شام سے، تری چشمِ تر میں سما گئے -- امجد اسلام امجد

جو اُتر کے زینئہ شام سے، تری چشمِ تر میں سما گئے
وُہی جَلتے بجھتے چراغ سے ،مرے بام و دَر کو سجا گئے

یہ جو عاشقی کا ہے سلسلہ، ہے یہ اصل میں کوئی معجزہ
کہ جو لفظ میرے گُماں میں تھے، وہ تری زبان پہ آگئے !

وہ جو گیت تم نے سُنا نہیں، مِری عُمر بھر کا ریاض تھا
مرے درد کی تھی وہ داستاں ، جِسے تم ہنسی میں اُڑاگئے

وہ چراغِ جاں، کبھی جس کی لَو ، نہ کسی ہَوا سے نِگوں ہوئی
تری بے وفائی کے وسو سے ، اُسے چُپکے چُپکے بُجھا گئے

وہ تھا چاند شامِ وصال کا ، کہ تھا رُوپ تیرے جمال کا
مری روح سے مِری آنکھ تک، کِسی روشنی میں نہا گئے

یہ جو بند گانِ نیاز ہیں، یہ تمام ہیں وہی لشکر ی !
جنھیں زندگی نے اماں نہ دی، تو ترے حضور میں آگئے

تری بے رُخی کے دیار میں، میں ہَوا کے ساتھ ہَوا ہُوا
ترے آئنے کی تلاش میں ، مِرے خواب چہرا گنوا گئے

ترے وسوسوں کے فشار میں ، ترا شہرِ رنگ اُجڑ گیا
مری خواہشوں کے غُبار میں، مرے ماہ وسالِ وفا گئے!

وہ عجیب پُھول سے لفظ تھے، ترے ہونٹ جن سے مہک اُٹھے
مِرے دشتِ خواب میں دُور تک، کوئی باغ جیسے لگا گئے

مِری عُمر سے نہ سمٹ سکے، مِرے دل میں اتنے سوال تھے
ترے پاس جتنے جواب تھے، تری اِک نگاہ میں آگئے

امجد اسلام امجد

چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے -- امجد اسلام امجد

چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلے

فصلِ گل آئی، پھر اِک بار اسیرانِ وفا
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے

ہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے

عمر گذری ہے شبِ تار میں آنکھیں ملتے
کس افق سے مرا خورشید نہ جانے نکلے

کوئے قاتل میں چلے جیسے شہیدوں کا جلوس
خواب یو ں بھیگتی آنکھوں کو سجانے نکلے

دل نے اِک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محل
تونے اک بات کہی، لاکھ فسانے نکلے

دشتِ تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
ہا ئے کیا لوگ مرا ساتھ نبھانے نکلے

میں نے امجد اسے بےواسطہ دیکھا ہی نہیں
وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے


امجد اسلام امجد


محبت ایسا نغمہ ہے -- امجد اسلام امجد

محبت ایسا نغمہ ہے 
ذرا بھی جھول ہے لَے میں 
تو سُر قائم نہیں ہوتا 

محبت ایسا شعلہ ہے 
ہوا جیسی بھی چلتی ہو 
کبھی مدھم نہیں ہوتا 

محبت ایسا رشتہ ہے 
کہ جس میں بندھنے والوں کے 
دلوں میں غم نہیں ہوتا 

محبت ایسا پودا ہے 
جو تب بھی سبز رہتا ہے 
کہ جب موسم نہیں ہوتا 

محبت ایسا دریا ہے 
کہ بارش روٹھ بھی جائے 
تو پانی کم نہیں ہوتا 

امجد اسلام امجد

اب مرے شانے سے لگ کر کس لیے روتی ہو تم -- امجد اسلام امجد

اب مرے شانے سے لگ کر کس لیے روتی ہو تم
یاد ہے تم نے کہا تھا
''جب نگاہوں میں چمک ہو
لفظ جذبوں کے اثر سے کانپتے ہوں اور تنفس
اس طرح الجھیں کہ جسموں کی تھکن خوشبو بنے
تو وہ گھڑی عہد وفا کی ساعت نایاب ہے
وہ جو چپکے سے بچھڑ جاتے ہیں لمحے ہیں مسافت
جن کی خاطر پاؤں پر پہرے بٹھاتی ہے
نگاہیں دھند کے پردوں میں ان کو ڈھونڈتی ہیں
اور سماعت ان کی میٹھی نرم آہٹ کے لیے
دامن بچھاتی ہے''
اور وہ لمحہ بھی تم کو یاد ہوگا
جب ہوائیں سرد تھیں اور شام کے میلے کفن پر ہاتھ رکھ کر
تم نے لفظوں اور تعلق کے نئے معنی بتائے تھے، کہا تھا
''ہر گھڑی اپنی جگہ پر ساعت نایاب ہے
حاصل عمر گریزاں ایک بھی لمحہ نہیں
لفظ دھوکہ ہیں کہ ان کا کام ابلاغ معانی کے علاوہ کچھ نہیں
وقت معنی ہے جو ہر لحظہ نئے چہرے بدلتا ہے
جانے والا وقت سایہ ہے
کہ جب تک جسم ہے یہ آدمی کے ساتھ چلتا ہے
یاد مثل نطق پاگل ہے کہ اس کے لفظ معنی سے تہی ہیں
یہ جسے تم غم اذیت درد آنسو
دکھ وغیرہ کہہ رہے ہو
ایک لمحاتی تأثر ہے تمہارا وہم ہے
تم کو میرا مشورہ ہے، بھول جاؤ تم سے اب تک
جو بھی کچھ میں نے کہا ہے''
اب مرے شانے سے لگ کر کس لیے روتی ہو تم


امجد اسلام امجد