تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لیے
جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے
ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کمسِن کے لیے
کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے
سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند
اب کوئی حور آئے گی اِن کے لئے
صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ موذِّن کے لیے
امیر مینائی
Monday, 6 March 2017
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے - امیر مینائی
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ۔ امیر مینائی
یہ سب ظہورِ شانِ حقیقت بشر میں ہے
جو کچھ نہاں تھا تخم میں، پیدا شجر میں ہے
ہر دم جو خونِ تازہ مری چشمِ تر میں ہے
ناسور دل میں ہے کہ الٰہی جگر میں ہے
کھٹکا رقیب کا نہیں، آغوش میں ہے یار
اس پر بھی اک کھٹک سی ہمارے جگر میں ہے
واصل سمجھیے اس کو جو سالک ہے عشق میں
منزل پہ جانیے اسے جو رہگزر میں ہے
آنکھوں کے نیچے پھِرتی ہے تصویر یار کی
پُتلی سی اک بندھی ہوئی تارِ نظر میں ہے
کرتے ہیں اس طریق سے طے ہم رہِ سلوک
سر اس کے آستاں پہ، قدم رہگزر میں ہے
پہلو میں میرے دل کو نہ، اے درد! کر تلاش
مدت ہوئی تباہی کا مارا سفر میں ہے
تُلسی کی کیا بہار ہے دندانِ یار پر
سوسن کا پھول چشمۂ آبِ گہر میں ہے
ہو دردِ عشق ایک جگہ تو دوا کروں
دل میں، جگر میں، سینے میں، پہلو میں، سر میں ہے
صیّاد سے سوال رہائی کا کیا کروں
اُڑنے کا حوصلہ ہی نہیں بال و پر میں ہے
قاصد کو ہاتھ داغ کے بھیجا ہے یار نے
خاکی نئی رسید کفِ نامہ بر میں ہے
تیرِ قضا کو ناز ہے کیا اپنے توڑ پر
اتنا اثر تو یار کی سیدھی نظر میں ہے
تم جاؤ تیغ باندھ کے پھر سیر دیکھ لو
میرے گلے پہ ہے کہ تمھاری کمر میں ہے
ساقی مئے طہور میں کیفیّتیں سہی
پر وہ مزا کہاں ہے جو تیری نظر میں ہے
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی
جو کچھ نہاں تھا تخم میں، پیدا شجر میں ہے
ہر دم جو خونِ تازہ مری چشمِ تر میں ہے
ناسور دل میں ہے کہ الٰہی جگر میں ہے
کھٹکا رقیب کا نہیں، آغوش میں ہے یار
اس پر بھی اک کھٹک سی ہمارے جگر میں ہے
واصل سمجھیے اس کو جو سالک ہے عشق میں
منزل پہ جانیے اسے جو رہگزر میں ہے
آنکھوں کے نیچے پھِرتی ہے تصویر یار کی
پُتلی سی اک بندھی ہوئی تارِ نظر میں ہے
کرتے ہیں اس طریق سے طے ہم رہِ سلوک
سر اس کے آستاں پہ، قدم رہگزر میں ہے
پہلو میں میرے دل کو نہ، اے درد! کر تلاش
مدت ہوئی تباہی کا مارا سفر میں ہے
تُلسی کی کیا بہار ہے دندانِ یار پر
سوسن کا پھول چشمۂ آبِ گہر میں ہے
ہو دردِ عشق ایک جگہ تو دوا کروں
دل میں، جگر میں، سینے میں، پہلو میں، سر میں ہے
صیّاد سے سوال رہائی کا کیا کروں
اُڑنے کا حوصلہ ہی نہیں بال و پر میں ہے
قاصد کو ہاتھ داغ کے بھیجا ہے یار نے
خاکی نئی رسید کفِ نامہ بر میں ہے
تیرِ قضا کو ناز ہے کیا اپنے توڑ پر
اتنا اثر تو یار کی سیدھی نظر میں ہے
تم جاؤ تیغ باندھ کے پھر سیر دیکھ لو
میرے گلے پہ ہے کہ تمھاری کمر میں ہے
ساقی مئے طہور میں کیفیّتیں سہی
پر وہ مزا کہاں ہے جو تیری نظر میں ہے
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے ۔ امیر مینائی
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گل ہیں نہ غنچے نو بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے
ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے
جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے
خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گل ہیں نہ غنچے نو بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے
ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے
جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے
خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے
امیر مینائی
از: دیوانِ امیر مینائی معروف بہ صنم خانۂ عشق
Saturday, 4 March 2017
ساقی ہوں تیس روز سے مشتاق دید کا - خواجہ حیدر علی آتش
ساقی ہوں تیس روز سے مشتاق دید کا
دکھلا دے جامِ مے میں مجھے چاند عید کا
موقع ہوا نہ اُس رخِ روشن کی دید کا
افسانہ ہی سنا کیے ہم صبحِ عید کا
افسانہ سنیے یار کا ذکر اُس کا کیجیے
مقصود ہے یہی مری گفت و شنید کا
شیدائے حسنِ یار کس اقلیم میں نہیں
محبوب ہے وہ ماہ قریب و بعید کا
حاضر ہے چاہے جو کوئی نعمت فقیر کی
شیریں کلام اپنا ہے توشہ فرید کا
مریخ کا ہے ظلم و ستم کس شمار میں
پیرِ فلک کو رتبہ ہے تیرے مرید کا
حجت دہانِ یار میں کیونکر نہ کیجیے
منظور ہے ثبوت ہمیں ناپدید کا
لیتا ہے بوسہ دے کے وہ سیمیں عذار دل
یہ حال عاشقوں کا ہے جو زر خرید کا
آرائش اُن کی قتل کرے ہم کو بے گناہ
درکار مہندی گندھنے کو ہو خوں شہید کا
بندِ قبائے یار کے عقدے ہوں لاکھ قفل
گستاخ ہاتھ کام کریں گے کلید کا
دل بیچتے ہیں عاشقِ بے تاب لیجیے
قیمت وہ ہے جو مول ہو مالِ مزید کا
اپنی طرف اُن ابروؤں کے رخ کو پھیریے
اللہ زور دے جو کماں کی کشید کا
سودائیوں کو حاکمِ ظالم سے ڈر نہیں
داغِ جنوں ہر ایک نگیں ہے حدید کا
اُس رخ پہ ابروؤں سے مسوں کو سمجھ نہ کم
ہر آیہ ہے فیصح کلامِ مجید کا
کنجِ قفس میں پہنچی صبا لے کے بوئے گل
خط آ گیا بہارِ چمن کی رسید کا
شادیِ بے محل سے بھی ہوتا ہے دل کو غم
اندوہ طفل جمعہ کو ہوتا ہے عید کا
قاتل رہا کرے گی شبِ جمعہ روشنی
کوچے میں تیرے ڈھیر ہو تیرے شہید کا
موسیٰ کی طرح ہم کو بھی دیدار کا ہے شوق
آنکھوں کو حوصلہ ہے تجلی کی دید کا
صورت کو تیری دیکھنے آتے ہیں قرعہ بیں
رخ پر یقین ہے اُنہیں شکلِ سعید کا
چسپاں بدن سے یار کے ہو کر قبائے ناز
حیران کار رکھتی ہے قطع و برید کا
بے جرم تیغِ عشق سے دل ہو گیا ہے قتل
سینہ مرا مقام ہے مردِ شہید کا
دیوانہ زلفِ یار کی زنجیر کا ہے دل
رہتا ہے صدمہ روح کو قیدِ شدید کا
خوں ریز جس قدر کہ ہو اُس سے عجب نہیں
آتش فراقِ یار پدر ہے یزید کا
دکھلا دے جامِ مے میں مجھے چاند عید کا
موقع ہوا نہ اُس رخِ روشن کی دید کا
افسانہ ہی سنا کیے ہم صبحِ عید کا
افسانہ سنیے یار کا ذکر اُس کا کیجیے
مقصود ہے یہی مری گفت و شنید کا
شیدائے حسنِ یار کس اقلیم میں نہیں
محبوب ہے وہ ماہ قریب و بعید کا
حاضر ہے چاہے جو کوئی نعمت فقیر کی
شیریں کلام اپنا ہے توشہ فرید کا
مریخ کا ہے ظلم و ستم کس شمار میں
پیرِ فلک کو رتبہ ہے تیرے مرید کا
حجت دہانِ یار میں کیونکر نہ کیجیے
منظور ہے ثبوت ہمیں ناپدید کا
لیتا ہے بوسہ دے کے وہ سیمیں عذار دل
یہ حال عاشقوں کا ہے جو زر خرید کا
آرائش اُن کی قتل کرے ہم کو بے گناہ
درکار مہندی گندھنے کو ہو خوں شہید کا
بندِ قبائے یار کے عقدے ہوں لاکھ قفل
گستاخ ہاتھ کام کریں گے کلید کا
دل بیچتے ہیں عاشقِ بے تاب لیجیے
قیمت وہ ہے جو مول ہو مالِ مزید کا
اپنی طرف اُن ابروؤں کے رخ کو پھیریے
اللہ زور دے جو کماں کی کشید کا
سودائیوں کو حاکمِ ظالم سے ڈر نہیں
داغِ جنوں ہر ایک نگیں ہے حدید کا
اُس رخ پہ ابروؤں سے مسوں کو سمجھ نہ کم
ہر آیہ ہے فیصح کلامِ مجید کا
کنجِ قفس میں پہنچی صبا لے کے بوئے گل
خط آ گیا بہارِ چمن کی رسید کا
شادیِ بے محل سے بھی ہوتا ہے دل کو غم
اندوہ طفل جمعہ کو ہوتا ہے عید کا
قاتل رہا کرے گی شبِ جمعہ روشنی
کوچے میں تیرے ڈھیر ہو تیرے شہید کا
موسیٰ کی طرح ہم کو بھی دیدار کا ہے شوق
آنکھوں کو حوصلہ ہے تجلی کی دید کا
صورت کو تیری دیکھنے آتے ہیں قرعہ بیں
رخ پر یقین ہے اُنہیں شکلِ سعید کا
چسپاں بدن سے یار کے ہو کر قبائے ناز
حیران کار رکھتی ہے قطع و برید کا
بے جرم تیغِ عشق سے دل ہو گیا ہے قتل
سینہ مرا مقام ہے مردِ شہید کا
دیوانہ زلفِ یار کی زنجیر کا ہے دل
رہتا ہے صدمہ روح کو قیدِ شدید کا
خوں ریز جس قدر کہ ہو اُس سے عجب نہیں
آتش فراقِ یار پدر ہے یزید کا
خواجہ حیدر علی آتش
وحشت آگیں ہے فسانہ مری رسوائی کا - خواجہ حیدر علی آتش
وحشت آگیں ہے فسانہ مری رسوائی کا
عاشقِ زار ہوں اک آہوئے صحرائی کا
پاؤں زنداں سے نہ نکلا ترے سودائی کا
داغ دل ہی میں رہا لالۂ صحرائی کا
دھیان رہتا ہے قدِ یار کی رعنائی کا
سامنا روز ہے یاں آفتِ بالائی کا
کوہِ غم مثلِ پرِ کاہ اٹھا لیتا ہوں
ناتوانی میں بھی عالم ہے توانائی کا
لحدِ تیرہ میں مجھ پر جو لگا ہونے عذاب
پھر گیا آنکھوں میں عالم شبِ تنہائی کا
کون سا دل ہے نہیں جس میں خدا کی منزل
شکوہ کس منہ سے کروں میں بتِ رعنائی کا
مردِ درویش ہوں تکیہ ہے توکل میرا
خرچ ہر روز ہے یاں آمدِ بالائی کا
بوسۂ چشمِ غزالاں مجھے یاد آتے ہیں
نہیں بھولا میں مزا میوۂ صحرائی کا
زندگانی نے مجھے مردہ بنا رکھا ہے
ملک الموت سے سائل ہوں مسیحائی کا
مصرعِ سرو میں لاکھوں ہی نکالوں شاخیں
باندھوں مضموں جو قدِ یار کی رعنائی کا
جب سے شیطان کا احوال سنا ہے میں نے
پائے بت پر بھی ارادہ ہے جبیں سائی کا
ہوئی حجت مجھے غنچے کے چٹکنے کی صدا
شک پڑا تھا دہنِ یار میں گویائی کا
وہ تماشا ہے ترا حُسنِ پرآشوب اے ترک
آنکھوں کی راہ سے دم نکلے تماشائی کا
کس طرح سے دلِ وحشی کا میں کہنا مانوں
کوئی قائل نہیں دیوانے کی دانائی کا
یہی زنجیر کے نالے سے صدا آتی ہے
قیدخانے میں برا حال ہے سودائی کا
اک پری کو بھی نہ شیشے میں اتارا میں نے
یاد کیا آئے گا اس گنبدِ مینائی کا
بعد شاعر کے ہو مشہور کلامِ شاعر
شہرہ البتہ کہ ہو مردے کی گویائی کی
شہر میں قافیہ پیمائی بہت کی آتش
اب ارادہ ہے مرا بادیہ پیمائی کا
خواجہ حیدر علی آتش
یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے - آتش
یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے
پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے
لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغر مئے نقرئی سبُو کرتے
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے
جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارہء سحری تکمہء گلُو کرتے
یہ کعبہ سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخ ِیار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رُو کرتے
سکھاتے نالہء شب گیر کو در اندازی
غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے
وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے
نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
خواجہ حیدر علی آتش
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے
پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے
لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغر مئے نقرئی سبُو کرتے
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے
جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارہء سحری تکمہء گلُو کرتے
یہ کعبہ سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخ ِیار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رُو کرتے
سکھاتے نالہء شب گیر کو در اندازی
غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے
وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے
نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
خواجہ حیدر علی آتش
فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا - حیدر علی آتش
فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بگڑا
امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک
نہ اک مُو کم ہوا اپنا ، نہ اک تارِ کفن بگڑا
لگے مُنہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
بناوٹ کیفِ مے سے کُھل گئی اُس شوخ کی آتش
لگا کر مُنہ سے پیمانے کو، وہ پیمان شکن بگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بگڑا
امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک
نہ اک مُو کم ہوا اپنا ، نہ اک تارِ کفن بگڑا
لگے مُنہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
بناوٹ کیفِ مے سے کُھل گئی اُس شوخ کی آتش
لگا کر مُنہ سے پیمانے کو، وہ پیمان شکن بگڑا
حیدر علی آتش
Subscribe to:
Posts (Atom)